تم فقط میرے
تم فقط میرے
از قلم سہیرا اویس
قسط نمبر19
اور اسے یقین تھا کہ وہ ایسا ضرور کرے گی۔۔!!
××××
عنقا کا آخری پیپر تھا۔۔ وہ بہت توجہ سے اس کی تیاری میں مشغول تھی، یہ سبجیکٹ اس کو ہمیشہ ہی سب سے مشکل لگتا تھا، اس لیے، اس کی تیاری میں ، اس کا اچھا خاصہ وقت صرف ہوا۔
×××
تقریباً صبح کے ساڑھے چار بجے کا وقت تھا۔۔ اور وہ ابھی تک تیاری میں مگن تھی۔ عدیل کی آنکھ کھلی تو اس نے عنقا کو کتاب میں گھسا ہوا پایا۔
"تم ابھی تک پڑھ رہی ہو؟؟؟" وہ حیران ہوتا ہوا بولا،
"جی۔۔!! میرا پیپر ہے کل۔۔!! میرا خیال ہے کہ اس میں اتنی حیرانی والی کوئی بات نہیں۔۔!!" عنقا نے عدیل کے فکر زدہ لہجے کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے بیزار ہوتے ہوئے تڑخ کر جواب دیا۔
ایک تو وہ پڑھ پڑھ کر بے تحاشا تھک چکی تھی اوپر سے نیند سے بوجھل ہونے کی وجہ سے عجیب چڑچڑا پن اس پر طاری تھا،تبھی اس نے اتنا بدلحاظ ہو کر جواب دیا۔
عدیل نے اس کے بدلحاظ سے جواب کا بالکل برا نہیں منایا، بلکہ وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور تھوڑی دیر کے بعد ہاتھ میں میں کافی کے دو مگ اٹھاتے ہوئے کمرے میں داخل ہوا، اس وقت، واقعی عنقا کو شدت سے اس کی طلب محسوس ہو رہی تھی۔۔۔ اب اسے اپنے گندے رویے پر افسوس ہوا اور کچھ شرمندگی بھی محسوس ہوئی، لیکن وہ ہر گز ،، عدیل کے سامنے اپنی شرمندگی کا اظہار نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔اس لیے اس نے خود کو بالکل سنجیدہ ظاہر کرتے ہوئے، بڑی ڈھٹائی سے، عدیل کے ہاتھوں سے کافی کا مگ لیا اور جلدی جلدی کافی غَٹَکنے لگی۔۔ حد تو یہ تھی کہ اس نے عدیل کا شکریہ ادا کرنے کی بھی زحمت نہیں
کی، خیر وہ بے چارہ بھی اس کی اکڑ کو برداشت کرتا ہوا، بڑے سکون نے کافی پی رہا تھا۔
کافی ختم کرنے کے بعد، وہ عنقا کے پاس سے اس کی ساری کتابیں سمیٹنے لگا، "یہ کیا کر رہے ہیں آپ؟؟؟" عنقا نے ماتھے پر بل چڑھا کر ، ناسمجھی کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا۔ "تمہاری بکس سمیٹ رہا ہوں۔۔دکھائی نہیں دے رہا؟؟" اس نے نارمل لہجے میں جواب دیا۔
"پر کیوں۔۔؟؟ آپ کو پتہ نہیں کہ میں نے پڑھنا ہے اپنا۔۔!!" اس نے احتجاج کیا۔
"توبہ کرو لڑکی، اور کتنا پڑھو گی؟؟ وقت دیکھا ہے تم نے؟؟ چار بج چکے ہیں۔۔!! اگر اب تھوڑی دیر بھی اور کتابوں میں گھسی ناں۔۔ تو سارے پیپر میں سوتی رہو گی۔۔!! اس لیے شرافت کے دائرے میں رہتے ہوئے بیڈ پر پہنچو اور سوجاؤ۔۔!!" عدیل نے رعب جما کر کہا۔
عنقا کو بھی اس کی بات کچھ حد تک ٹھیک لگی تھی۔۔ اس لیے وہ بھی گندا سا منہ بناتے ہوئے اٹھی اور سونے کے لیے بیڈ پر چلی گئی، اب یہ جتانا بھی تو ضروری تھا ناں کہ عدیل نے جبراً ، اس کو پڑھنے سے روکا ہے۔۔ ورنہ تو اس کا خود بھی سونے کا ، خوب دل تھا۔۔ یعنی اس وقت ، اس کے تھکن اور نیند سے بے حال وجود کو اطمینان سے سونے کی اشد ضرورت تھی۔
کافی پینے کے بعد ، اس کی تھکاوٹ زدہ وجود کو ، کچھ حد تک تسکین پہنچی تھی۔۔ مگر پھر بھی وہ سونا چاہتی تھی۔
××××
صبح، وہ معمول سے لیٹ اٹھی اور اب جلدی جلدی تیاری کرنے میں مصروف تھی۔ تیار ہونے کے بعد وہ عدیل کے ہمراہ یونیورسٹی پہنچی۔ شکر تھا کہ وہ یونیورسٹی سے لیٹ نہیں ہوئی تھی، اب یہاں اسے ساری ٹینشن اس کے پیپر کی تھی کہ اللّٰه جانے اچھا ہوگا بھی یا نہیں، اس کی شکل ایسی تھی کہ کوئی بھی دیکھ کر سمجھ سکتا تھا کہ وہ اس وقت بڑی ٹینشن میں ہے، اسے پریشان دیکھتے ہوئے غانیہ اس کے پاس آئی، "خیر تو ہے۔۔!! اتنی پریشان لگ رہی ہو۔۔؟؟" غانیہ نے بالکل نارمل ہو کر پوچھا، اس کے لہجے سے لگتا ہی نہیں تھا کہ ان دونوں کے درمیان کبھی کوئی کدورت ، کوئی رنجش پیدا ہوئی تھی۔
"آپ کون۔۔؟؟" عنقا نے جل کر طنز کیا اور اس کے پاس سے اٹھ کر چلی گئی، بےشک وہ جتاتی نہیں تھی لیکن غانیہ کے سابقہ، کھینچے کھینچے رویے نے ، اسے کچھ تکلیف تو پہنچائی تھی۔
شکر تھا کہ اس کا سامنا ، عادل سے نہیں ہوتا تھا، ورنہ ممکن تھا کہ وہ، اپنی زندگی کے سب سے بڑے حادثے کے افسوس سے باہر نہ نکل پاتی۔۔۔!! ممکن تھا کہ وہ عدیل کے ساتھ ایڈجسٹ نہ ہو پاتی۔۔!!
×××
غانیہ سمجھ سکتی تھی کہ عنقا نے ایسے ری ایکٹ کیوں کیا۔!! اسے بھی اپنے دل میں، فضول سا کینہ پالنے پر خاصی شرمندگی اور افسوس تھا، کہ آخر اس نے کیسے عنقا کا سابقہ منگیتر ہڑپ کر ، اسی سے کنارا کر لیا، لیکن وہ بھی کیا کرتی۔۔!!! پیشکش تو عادل کی طرف سے ہوئی تھی ناں، اور اس سے دوستی کے بعد، اس میں ہمت نہیں تھی کہ وہ عنقا کا سامنا کرتی، اسی لیے ، اس نے، اپنی پیاری سی دوست سے دوری اختیار کی۔ پر اب وہ سب سدھارنا چاہتی تھی، اسی میں سب کی بھلائی تھی۔
××××
عنقا، اپنا پیپر دے کر، بڑی خوش خوش باہر نکلی، وہ امید سے زیادہ اچھا پرفارم کر کے آئی تھی، اس لیے بے حد مطمئن بھی تھی، غانیہ بھی پیپر دے کر آئی تو عنقا کو ڈھونڈ کر اسی کے پاس آ کر بیٹھی۔۔ "لگ رہا ہے۔۔ پیپر کچھ زیادہ اچھا ہو گیا۔۔؟؟" اس نے چہکتے ہوئے پوچھا۔
"تم سے مطلب؟؟" عنقا بگڑ کر بولی۔
"یار ایسے تو بات نہیں کرو۔۔!!" غانیہ نے منت کی۔
"شکر کرو۔۔ بات کر رہی ہوں۔۔!! ورنہ تم نے تو مجھے اس لائق بھی نہیں سمجھا۔۔!! مجھے سمجھ نہیں آتی کہ آخر جو برا ہوا۔۔ میرے ساتھ ہوا۔۔ تمہیں تو چاہیے تھا تم لوگ میری مدد کرتے، مجھے سپورٹ کرتے یا کم سے کم میرا دکھ بانٹتے۔۔!! لیکن نہیں۔۔!! تم لوگوں نے تو الٹا مجھے ہی اکیلا کر دیا۔۔!!"عنقا نے بالآخر اپنے دل کی بھڑاس نکالی۔
یہ چھوٹی چھوٹی باتیں، بظاہر وہ نظر انداز کرتی تھی اور اسے لگتا تھا کہ وہ ان بالکل کوئی اثر نہیں لیتی۔۔لیکن ، اسے ہر ایک کی زیادتی، ہر ایک کی بد سلوکی، اندر ہی اندر، بہت چبھتی تھی، تکلیف پہنچاتی تھی۔۔!!
اسے اس وقت عادل کے وہ تلخ لہجے میں کہے گئے، اذیت ناک الفاظ بھی یاد آئے، جو اس نے ، عنقا کو الزام دیتے ہوئے کہے تھے۔۔۔!!
( "تم نے بہت ہی گھٹیا حرکت کی ہے۔۔!! تم تو مجھ سے محبت کرتی تھیں ناں۔۔تو پھر مجھ پر، اتنا بڑا ظلم کیوں کیا۔۔؟؟ جواب دو ۔۔!!")
اسے ایک ایک لفظ یاد آیا ، اور یاد آتے ہی آنسو ، اس کی آنکھوں سے ابل بڑے، یہ نہیں تھا کہ عادل میں اس کی کوئی دلچسپی باقی تھی، بس رویوں کا دکھ تھا، جسے وہ کہہ کر ، اظہار کر کے ختم کرنا چاہتی تھی۔
غانیہ کھڑی اسے دیکھ رہی تھی، بے شک وہ اس کی سوچ نہیں پڑھ سکتی تھی لیکن اس کی شکایتیں سن چکی تھی ناں،اس کے درد کا اندازہ تو لگا چکی تھی ناں، اور اس کے اس طرح بے اختیار رونے پر وہ بھی تو بے چین ہوئی تھی، اس لیے تو اس نے لپک کر اسے گلے لگایا۔
"آئم سوری۔۔ عنقا۔۔!! پلیز معاف کردو۔۔!! مجھ سے غلطی ہو گئی۔۔ بہت بڑی غلطی۔۔!! میں سچ میں بہت شرمندہ ہوں۔۔!!" غانیہ نے ندامت سے چور لہجے میں سسک کر کہا۔۔ آنسو اس کی آنکھوں سے بھی جاری تھے۔
اس کے ایسا کہنے پر عنقا کو مزید رونا آیا۔۔"گندی چڑیل۔۔!!" وہ اس کے گلے لگی، روٹھے ہوئے سے لہجے میں بولی۔۔ کہنے کے انداز سے صاف ظاہر تھا کہ اس کے دل میں غانیہ کے لیے اب کوئ میل نہیں۔ اس کے جواب پر غانیہ مسکرا اٹھی۔
"اوہوووو۔۔!! بڑی ہگز دی جارہی ہیں ایک دوسرے کو۔۔!!" ذرا فاصلے پر کھڑے، اسٹوڈنٹس میں سے کسی ایک نے نعرہ لگایا، وہ دونوں ہڑبڑا کر علیحدہ ہوئیں، باقی اسٹوڈنٹس دانت نکالنے لگے۔۔!! "ہاں۔۔ تو تم کیوں جل رہے ہو۔۔!!" غانیہ نے بھی اپنا اعتماد بحال کرتے ہوئے، ہانک لگا کر حساب برابر کیا۔
××××
معمول کی طرح، عدیل آج بھی اسے لینے آیا تھا۔۔ پیپرز ختم ہونے کی تو، اس کو ، عنقا سے زیادہ خوشی تھی، کیوں کہ اب وہ سکون سے اس کو تنگ کر سکتا تھا۔
عنقا بھی، اپنی پڑھائی کی طرف سے مکمل آزاد ہو چکی تھی اس لیے خاصہ ریلیکس، فیل کر رہی تھی اور ایگزامز کی ٹینشن بھی بالکل ختم ہو چکی تھی سو اب اس دماغ بالکل خالی تھا، اس میں ، کوئی نئی تکلیف، کوئی نئی ٹینشن یا کوئی نیا شوشہ چھوڑنے کے لیے کافی جگہ بن گئی تھی۔
یہ انسانوں کا دماغ بھی کب زیادہ دیر تک خالی رہتا ہے۔۔!!
سو اس لیے ، اس کا دماغ بھی، اس کا چین برباد کرنے کے لیے، ایک زبردست سا ، خرافاتی خیال، اس کے شعور میں منتقل کر چکا تھا۔
اور وہ بھی کار میں، عدیل کے قریب ہی ، فرنٹ سیٹ پر بیٹھی۔۔!! نیا پھڈا ڈالنے کے لیے، بالکل تیار تھی۔